وہ جو رُکا ہوا ہے

یہ تو کب سے چل رہا ہے، اور کب سے رکا ہوا ہے۔

وہی مصروف دن، مضطرب شامیں۔

سُنی سنائی باتیں، معلوم ملاقاتیں۔

کبھی یہی حال لیے چل دیے، خود کو کچھ پل دیے۔

پھر وہی برقی قمقمے، دیکھنے دکھانے کی شمعیں۔

کالک من کو اور ملی، نسیں تن کی اور تنی۔

کر لی تھوڑی بہت التجا، پھر یہ جا وہ جا۔

ہاں یہ سب تو چل رہا ہے، پھر کیا ہے جو رُکا ہوا ہے؟

4 خیالات “وہ جو رُکا ہوا ہے” پہ

تبصرہ کریں