من، موج اور ملتان

میں اپنے آپ میں نیشنل جیوگرافک کے ایک ڈاکومنٹری فلم میکر طرح بن کر بابے کے پاس گیا۔ گھنی داڑھی، پرانے کپڑے، سراپے میں گرمی بھری ہوئی بابا مزاربہاؤالدین زکریا ملتانی  کے اندرونی صحن میں بنی مسجد کے ساتھ ایک تھڑے پہ بیٹھا تھا۔

"السلام علیکم بابا جی کیسے ہیں”
"وعلیکم السلام اللہ کا شکر ہے، مجھ سے کوئی بات مت کرو”

میں تھوڑا تذبذب کا شکار ہوا اور بات کو جاری رکھنے کی غرض سے کہا

"آپ میرے لیے دعا کردیں” "دعا کرنی ہے تو اندر جاؤ میرے پاس کیوں آئےہو؟”
"اندر دعا میں کر آیا بابا جی”
"جب تمہیں اس کی دعا پر اعتبار نہیں تو میری دعا پر کیا اعتبار ہوگا”

میری ساری ڈرامے بازیاں، کہانیاں، امیدیں زمین پرگری پڑی تھیں اور میں خالی سا بابے کے پاس کچھ دیر چُپ چاپ بیٹھا رہا، میرے پاس کوئی جواب نہ تھا، اور وہاں سےاٹھنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہورہی تھی۔

Mazar Bahauddin Zakaria Multan

یہ ملتان میں میرا پہلا دن تھا، اور اس شہر نے مجھے بتا دیا تھا کہ رہنا ہے تو ادب سے رہو، یہ اولیاکرام کا شہر ہے، نیت سیدھی رکھو، پیار بہت ملے گا۔ ملتان کا سوہن حلوہ بھی اسی لیے مشہور ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں کی طرح میٹھا، گرمجوش اور ایک تاثیر رکھتا ہے۔ مزاربہاؤالدین زکریا میں گزرے چند لمحوں کا ہر سیکنڈ ایک کہانی تھا اور اُس میں چھپے شدید قسم کے اسباق۔ روّیوں اور باتوں میں دِکھتی بے اختیاری میرے دل کو بے اختیار کرگئی تھی۔

ملتان آئے، بہاؤالدین زکریا اور شاہ رکن عالم کے مزارات پر نہیں گئے تو آپ ملتان نہیں آئے۔ قلعہ ملتان، جسے قلعہ قاسم باغ بھی کہتے ہیں اور میں نے پڑھا ہے  کہ یہ قلعہ محمد بن قاسم کے ملتان آنے سے قبل بھی موجود تھا، اس قلعہ میں واقع یہ دونوں بزرگان دین کے مزارات ملتان کا دل ہیں۔ میں نے ملتان کے بارے میں کم ہی پڑھ رکھا ہے، لیکن وہاں کا چکر لگانے کے بعد کچھ تحقیقی مضامین پڑھے جن سے معلوم ہوا کہ یہ شہر کسی زمانے میں لاہور سے بھی بڑا تھا اور لاہور کو اس کے مضافات میں گنا جاتا تھا۔ اور ہر تاریخی بڑے شہر کی طرح اس پر بھی ہر زمانے اور ہر مذہب کے جنگجوؤں اور سپہ سالاروں نے حملے کیے۔

Mazar Bahauddin Zakaria Multan

دولت گیٹ کی جانب سے قلعہ قاسم باغ میں داخل ہو کر مزارات پر حاضری دینے کے بعد ہم قلعہ کے قاسم دروازے سے چوک گھنٹہ گھر کی طرف نکل آئے، قاسم گیٹ پر کھڑے ہو کر کچھ دیر تو میں پاکستان کے پانچویں بڑے شہر کی رونق کو دیکھتا رہا، اور پھر خود کو اس ہزاروں سال پرانے شہر کی مصروف زندگی میں دھکیل دیا۔

پرانے ملتان کے پرانے قلعے سے جب نظر پرانے شہر کے بیچ چلتی نئی میٹرو بسوں پر پڑتی ہے تو عجیب سے خوشی ہوتی ہے، ملتان کی سڑکیں کراچی یا لاہور جتنی کشادہ نہیں ہیں، اس لیے میٹرو کا جال ان سڑکوں کو تنگ کرگیا۔ ملتان کو وہ خوبی دے دی گئی جو پاکستان کے سب سے بڑے اور دنیا کے تیسرے بڑے شہر کے پاس بھی نہیں۔

چوک گھنٹہ گھر ملتان کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو لاہور کے لیے چوک یادگار، کراچی کے لیے ٹاور، فیصل آباد کے لیے اس کا گھنٹہ گھر ہے۔اس جگہ سے نظر آنے والا شاہ رکن عالم کا مزار، قاسم گیٹ، لوہاری گیٹ اور اس کی رنگ برنگی دکانیں، گھنٹہ گھر، ملتان میوزیم، اور اس چوک سے نکلتے نو، دس راستے اس جگہ کو ملتان کی دھڑکن بنا دیتے ہیں۔

Mann Mauj Multan Ghanta Ghar

بہت عرصے بعد میں کسی شہر کی تنگ اجنبی گلیوں میں گم ہوجانے کی خواہش لیے نکلا تھا۔ اپنی بیتی زندگی کے قصے سنانے میں مصروف بند دکانوں کے سائے میں بیٹھے بزرگ، شوق اور تجسس سے بھری نظروں کے ساتھ کہانیاں سنتے نوجوان، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے بچے، بچوں کے پیچھے بھاگتی ان کی مائیں، گلیوں کے کونے پر کھلے تندور، ہر چند قدم کے فاصلے پر بنی ایک مسجد، ہر مسجد سے جڑا ایک مزار، کھلی گلیوں سے جڑی بند گلیاں اور ان کے آخر میں دکھائی دیتے رنگ برنگے دروازے۔ یہ ملتان کا محلہ ٹبی شیر خان تھا، جو مشہور گھنٹہ گھر چوک پیچھے کچہری روڑ کے ساتھ واقع ہے۔مجھے ملتان سے فیصل آباد کی خوشبو بھی آئی لیکن ملتان کے پاس خود سے جڑی تاریخ کا جو پہاڑ ہے اس کے آگے فیصل آباد ایک چھوٹا سا ٹیلہ دکھائی دیتا ہے۔

Mann Mauj Multan Blog

Savi Masjid Multan

انہی گلیوں میں ایک ساوی مسجد بھی نظر آئی جو مغلیہ دور کے نواب سعید خان قریشی نے تعمیر کروائی تھی۔

تنگ گلیوں کے جال نے اٹھا کر مجھے ایک بازار میں پھینک دیا تھا، جہاں کی سب سے مشہور سوغات شیدن کی مچھلی اور اس کا توا چکن تھا، جس کے باہر کھوئے کی قلفیوں کی ایک ریڑھی لگی ہوئی تھی۔سانپ کی طرح بل کھاتے اس بازارسے نکلتے ہوئے وہ وقت ہوچلا کہ سورج بھی ہمارے انتظار میں ڈوب چکا تھا۔ ہم واپس گھنٹہ گھر کے رستے ابدالی روڈ پر نکل چکے تھے جہاں ہمیں صرف گول گپوں کی تلاش تھی، اس رات ہم نے چار جگہ سے گول گپے کھائے۔ کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کے باہر پانچ یا چھ گول گپے والے لائن لگائے کھڑے دنیا کو کھٹا میٹھا کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے اگلے دن کچھ نیا کھانے کی تلاش ہمیں گلگشت کالونی لے گئی، جسے ملتان کا ایم ایم عالم روڈ کہاجاسکتا ہے۔

 اپنی گرد اور گرمی کی وجہ سے جانا جانے والا ملتان ہمارے ساتھ بہت خوش اخلاقی سے پیش آیا، اس نے ہمیں بادلوں کے سایے میں رکھا، ٹھنڈی ہوا سے ہماری مہمان نوازی کی اور جاتے جاتے دوبارہ آنے کا وعدہ بھی لے گیا۔

6 خیالات “من، موج اور ملتان” پہ

  1. ایک بڑے شہرسے دوسرے بڑے شہرمیں زندگی بسرکرتے ہمیشہ چھوٹے شہروں ، قصبوں اور دیہات کو حسرت سے دیکھا ان کی دلکشی اورسادگی سے متاثرہوا-اس تحریرکا اثر اتنا جاندار ہے کہ خود کو اس ماحول میں محسوس کیا یہی ایک اچھے سفرنامہ نویس کی کامیابی ہے –

    پسند کریں

تبصرہ کریں