وادئ نیلم: جنت کا سفر – کیرن

مجھے پہاڑ بلاتے ہیں،اتنا ہی یاد کرتے ہیں جتنا میں انہیں کرتا ہوں۔ مجھے اس نشے کا علم نہ تھا، میں نہیں جانتا تھا کہ سفر سے انسان کتنا سیکھتا ہے، اور وہ بھی دنیا کے خوبصورت اور بلند ترین وادیوں اور پہاڑی سلسلوں کا سفر۔۔ جو کہ ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔

میرے بہت سے ہم وطن ہیں جو پاکستان کےشمالی علاقوں پر دبئی یا تھائی لینڈ کی سیر کو فوقیت دیتے ہیں، جن کی گردنیں بلند پہاڑوں کی جگہ بلند عمارتیں دیکھتے ہوئے تھکتی ہیں، جو آبشاروں اور دریاؤں کے شور کی جگہ ڈانس کلبوں کے شور میں گم ہونا پسند کرتے ہیں۔۔ جو قدرت کی جگہ انسانی ہاتھوں کے بنے نمونوں میں خود کو تلاش کرتے ہیں،  جو تاروں بھری راتوں کو رنگین پارٹیوں میں گنواتے ہیں۔۔ شائد وہ بھی کبھی ادھر آئیں۔۔۔ !

"کشمیر دنیا کی جنت ہے”

یہ جملہ بچپن میں اتنی بار سنا کہ کشمیر کا ذکر ہوتے ہی جنت کا منظر ہی ذہن میں آتا کہ ہاں جنت ایسی ہوگی، لیکن دنیا کی اس جنت کو دیکھنے ، وہاں رہنے، گھومنے اور وہاں کے لوگوں کو جاننے کا موقع اس سال مئی میں ملا جب اپنے ہر سال کے ہمسفر فرحان سہیل اور احراز سلیم پاشا کے ساتھ کراچی سے رخت سفر باندھا۔ پچھلی بار ہم فیری میڈوز اور وادئ ہنزہ کی سیر کو نکلے تھے تو جوش کے عالم میں بذریعہ ٹرین نکل پڑے  اور وہ بھی بغیر برتھ کے اکانومی کلاس میں، پچاس گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم نے کافی ‘suffer’ کیا۔۔ لہٰذااس بار وقت کی کمی اور پہاڑوں کی شدید چاہت نے ہمیں جہاز سے اسلام آباد جانے پر مجبور کیا، جہاں سے ہمارےاصل سفر کا آغاز ہوا۔اسلام آباد سے آزاد کشمیر کا سفر پہاڑوں کے درمیاں تنگ سڑکوں پر مشتمل ہے، جہاں کئی جگہ آپ کو چرواہے اپنے  بھیڑبکریوں کے ریوڑوں کے ساتھ پوری کی پوری سڑک پہ قبضہ جمائے گھومتے نظر آئیں گے، ساتھ ہی ان بھیڑ بکریوں کی حفاظت پہ معموراعلٰی نسل کے کتےجن پہ کئی سیاحوں کا دل آجاتا ہے۔ ان چرواہوں کے متعلق بھی کئی قصے کہانیاں مشہور ہیں کہ اپنے کتوں کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں، کئی لوگ ان کتوں کے لاکھوں روپے دینے کو تیار ہوتے ہیں لیکن آگے سے چرواہوں کا جواب ہوتا ہے کہ "جان لے لو، کتا نہیں دیں گے”،اور لڑائی جھگڑے کی صورت میں یہ چرواہے ہتھیاروں کے استعمال سے بھی نہیں ڈرتے۔

Boy at the bank of Neelum River, Azad Kashmir
نوعمر چرواہا دریائے نیلم کے کنارے — تصویر احسن سعید
IMG_8195
مری کے قریب الیوٹ روڈ پر ٹریفک جام — تصویر احسن سعید

ہمارا ابتدائی پلان پورا آزاد کشمیر گھومنے کا تھا، وادئ نیلم سے پیر چناسی اور پھر وادئ لیپا ہوتے ہوئے گڑھی دوپٹہ اور آخر میں راولاکوٹ اور بنجوسہ جھیل، لیکن مظفرآباد پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہمارا ایک ہفتہ وادئ نیلم میں ہی گزر جائےگا۔ احراز سلیم پاشا کو اس بات کی جلدی تھی کہ کسی طرح وہ اڑ کر اونچے پہاڑوں میں گھری سبز وادیوں اور میدانوں میں پہنچ جائے اور اپنے کیمرہ کی آنکھ سے قدرت کو محفوظ کرنے میں مصروف ہوجائے۔ اس کی اسی جلدی کی وجہ سے میں اپنی داڑھی بھی ٹھیک نہ کروا سکا، جس کا احساس مجھے بعد میں ہوا کہ جو ہوتا ہے اچھا ہی ہوتا ہے۔ وادئ ہنزہ کے برعکس اس بار ہم نے کسی ٹور گایئڈ کی مدد لیے بغیر خودی گھومنے کا فیصلہ کیا اور مظفرآباد سے ایک ٹیکسی کرائے پر لے کرگھوری، پنجور اور اٹھ مقام کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم کیرن پہنچے جہاں ہمارا قیام ایک رات کا تھا۔

Muzaffarabad, Azad Kashmir, Pakistan
مظفرآباد — تصویر احسن سعید
Kera, Neelum Valley, Azad Kashmir, Pakistan
کیرن، جہاں دریایے نیلم آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کو الگ کرتا ہے — تصویر احسن سعید

"سامنے دریا کے اس پار انڈین کشمیر ہے، وہاں بھی سب مسلمان بستے ہیں، 71ء کی جنگ سے پہلے وہ بھی پاکستان تھا۔ یہاں تو ابھی امن ہوا ہے ورنہ 10 سال پہلے تک تو یہاں گولہ باری ہی تھی، اب دونوں ملکوں کے بیچ امن معاہدہ ہو گیا ہے، اب یہاں سیاحت پروان چڑھ رہی ہے”، دریائے نیلم کے کنارے بنے ہوٹل کا مالک ہمیں کیرن کی تاریخ بتانے میں مگن تھا۔ اسی دوران تیز بارش شروع ہوگئی، ہم کراچی کے رہنے والے جو سال میں صرف ایک بار بارش دیکھتے ہیں، ایسے اٹھ کے باہر بھاگے جیسے دن کی آخری ٹرین چھوٹ رہی ہو۔ ہمارے وادئ نیلم کے قیام کے دوران ہمارا واسطہ بارش سے ہر روز پڑا  اور اللہ کی اس رحمت کو واقعی رحمت سمجھا۔

یہ بھی پڑھیں: Boys To Fairy Meadows and Hunza Valley

دریائے نیلم کا اچھلتا کودتا پانی، اونچے پہاڑوں کو گھیرے بادلوں سے برستی تیز بارش، اور دریا کے اس پار دکھتا کسی اور کا وطن جو کہ پہلے اپنا تھا، ایسے میں مجھے میری بقایا زندگی کے لیے اس جگہ چھوڑ دیں تو میں ہنسی خوشی راضی ہوجاؤں گا۔ آنے سے پہلے کسی نے کہا تھا کہ گھومنے پھرنے میں بھی کوئی مقصد بنا لو، جس میں تم آگے بڑھتے جاؤ۔۔ کچھ سوچ کر جانا، کہ وہاں کیا پانا ہے، اور کسے جاننا ہے اور فوقیت کسے دینی ہے۔

کیرن میں نیچے دریا بہتا ہے اور اوپر پہاڑ پر نیلم گاؤں ہے، جسے وادئ نیلم کا پہلا سیاحتی مقام بھی کہا جاتا ہے ، گاؤں کے لوگوں کی مہمان نوازی قابل دید ہے، سیاحوں کی آمد کی وجہ سےبہت سے گھروں میں ہوٹلز بنا دیے گئے ہیں اور لوگ سیاحت کو فروغ دینے میں پرجوش نظر آتے ہیں۔ہم گاؤں کے سب سے اونچے مقام پر جا کر بیٹھے ہی تھے کہ بارش شروع ہو گئی، ایک نو عمر لڑکا ہمارے پاس آیا اور ہمیں اپنی چائے کی دکان میں آنے کی دعوت دی، جس کے سوا وہاں کوئی سر چھپانے کی جگہ نہ تھی۔ دکان چار لڑکے چلاتے تھے جو کہ آپس میں کزنز تھے، ان میں سے ایک جو سب سے ہوشیار تھا ہمیں شاردہ اور کیل گاؤں کے متعلق معلومات دے رہا تھا، اسی نے ہمیں یہ دل دہلا دینے والی خبر دی کہ ‘رتی گلی جھیل’ تک پہنچے کا راستہ برف کی وجہ سے بند ہوگا۔۔ رتی گلی جھیل کشمیر کی خوبصورت ترین جھیلوں میں شمار کی جاتی ہےلیکن وہاں کے موسم کو جھیلنے کے کپڑے ہم لائے نہ تھے اور ہمیں وہاں جانے سے بھی کئی لوگوں نے اسی لیے روکا کہ برف باری کی وجہ سے راستہ بند ہو گا۔

Photo 17-05-2015 11 08 11
نیلم گاؤں، کیرن — تصویر احسن سعید
Photo 19-05-2015 11 58 06
دریائے نیلم کی دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کا علاقہ، وہ بھی کیرن کہلاتا ہے — تصویر احسن سعید

وادئ نیلم ابھی باقی ہے میرے دوست!

شاردہ، کیل اور اڑنگ کیل کا قصہ یہاں پڑھیے:  وادئ نیلم: جنت کا سفر – اڑنگ کیل

برف سے ڈھکے قصبے ہوپر کا قصہ پڑھیے: ہوپر کا سورج

7 خیالات “وادئ نیلم: جنت کا سفر – کیرن” پہ

  1. پنگ بیک: وادئ نیلم: جنت کا سفر – اڑنگ کیل | بلاگ اے

  2. Imran Qureshi

    بہت خوبصورت تحریر. میں نے اس سال جانا تھاوادی نیلم نہ جا سکا. انشانشاءاللہ 2016 میں جاؤں گا فیملی کے ساتھ. یہ فرمائیے اپنی گاڑی کہاں تک جا سکتی ہے اور جیپ کہاں سے لی جائے ؟

    پسند کریں

  3. پنگ بیک: ہوپر کا سورج – بلاگ اے

تبصرہ کریں